Phawar Ka Mausam
سماعتوں کی زمیں پر پھوار کا موسم
نذیر قیصر مجھے روح کے مدھم اجالوں میں ملا۔
ژولیان مجھے لاہور کی سڑکوں پر ملا تھا۔وہ صاف اردو بولتا‘فرانسیسی لہجے کی ہلکی آمیزش کے ساتھ۔ایک شب کہنے لگا ”یہ جو تم ہر بات میں مشرق اور مغرب کی تقسیم لے آتے ہو اسکی مجھے بالکل سمجھ نہیں آتی۔پھر کسی اور شب‘سرمد صہبائی کے گھر‘ساز کے ہلکے ہلکوروں پر وہ کہہ رہا تھا”ہم سب ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ایک طرح سانس لیتے‘ایک ہی طرح مسکراتے‘روتے‘محبت کرتے‘ایک سے لوگ ہیں“۔
ژولیان لاہور کی سڑکوں پر ملتا بچھڑتا رہا لیکن نذیر قیصر مجھے روح کے مدھم اجالے میں ایسا ملا کہ پھر جدا نہیں ہوا۔وہ اپنے نرم لہجے میں مجھے سے کہتا ہے ”محبت کو تلاش کرلیا جائے تو زندگی‘کائنات اور خدا ایک ہی آئینے میں جھلملانے لگتے ہیں“۔نذیر قیصر کا نرم لہجہ شاعری‘نثر اور گفتگو میں یک رنگ ہے۔اسکی شاعری دھیرے سے دل پر ہاتھ رکھتی ہے۔اسکا شعر مصری کی ڈلی کی طرح گھل کر سوچ کو میٹھا کرتا ہے۔نذیر قیصر اور اسکی شاعری مرے ساتھ ساتھ رہی۔محفلوں‘مشاعروں میں بھی اور تنہائی کے پلوں میں بھی۔
امرتا پریتم کا کرشنا‘”زیتون دی پتی“ لیے ”قسم فجر دے تارے دی“ کھا کر کہہ رہا ہے ”محبت میرا موسم ہے“۔
یہ شاعری ایک وحدت پسند روح کی آواز ہے۔یہ دوئی کو اکائی میں۔۔۔بلکہ ان گنت کو ایک دیکھنے کا رویہ ہے۔وہ اکائی انسان ہے جسے ایک دیکھنا نذیر قیصر کا خواب ہے۔وہ انسان پسند ہے سو محبت پسند ہے۔وہ کرنتھیوں کے نام پولس رسول کے پہلے خط کا تیرھواں باب ہے۔”اگر میں آدمیوں اور فرشتوں کی زبانیں بولوں اور محبت نہ رکھوں تو میں ٹھنٹھنا تا پیتل یا جھنجھناتی جھانجھ ہوں“۔
اس شاعر ی میں محبت ہے اور محبت کے ہزار پہلو ہیں۔نذیر قیصر محبت کے کسی بھی امکانی پہلو سے پہلوتہی نہیں کرتا۔وہ سوچ اور بدن کی یکسوئی کو محبت جانتا ہے۔
سماگئے تھے ہم اس طرح ایک دوجے میں
وہ اپنے نام سے مجھ کو بلایا کرتا تھا
جن لوگوں کی آنکھیں اچھی ہوتی ہیں
ان لوگوں کے سپنے سچے ہوتے ہیں
ہنستی آنکھوں اور مہکتے ہونٹوں سے
تم نے سارا گھر مہکایا ہوتا ہے
دیے نے اپنی لَو چھلکائی ہوتی ہے
گنبد نے منظر چھلکایا ہوتا ہے
مجھے سمیٹ لیا تم نے اپنے خوابوں میں
میں ورنہ رات سے باہر بکھرنے والا تھا
افتراقات تلاش کرنیوالوں کے ہجوم میں مشترکات دیکھنے والے کم ہوگئے ہیں۔ نذیر قیصر کے ہاں بلھے شا ہ اورخلیل جبران‘سچل سرمست اورجان کیٹس ‘حضرت سلیمان اور مہاتمابدھ۔۔یہ سب محبت کے ایک ہی لہجے میں کہتے ہیں ”آؤ ہم سب مل کر اختلاف ِ رائے پر اتفاق کرلیں۔۔ مسکرا کر ملیں اور محبت کریں۔نذیر قیصر نے اپنی کتاب میں لکھا”ہم جو امن‘محبت‘ایثار اور انسان دوستی کے دعویدار ہیں‘ ہم نے ابھی تک انسان سے گفتگو کرنا نہیں سیکھا“۔شاعری
کی بات کریں تو کسَی ہوئی کمان سے کڑے تیروں کی طرح چھوٹتے مصرعوں کی بلند آہنگ آوازوں سے یکسر جدا۔اس کی نرم میٹھی‘محبت بھری آواز کان پڑتی ہے تو کھنچے تنے اعصاب راحت پاتے ہیں۔
جاگنے والے تجھے ڈھونڈتے رہ جائیں گے
میں ترے خواب میں آکر تجھے لے جاؤں گا
سر پر جو گٹھڑی ہے اس کا بوجھ نہیں
گٹھڑی میں جو سپنا ہے وہ بھاری ہے
جب اس کی آنکھوں میں نیند سما نے لگتی ہے
دور کہیں اک دیے کی لَو تھرانے لگتی ہے
خواب سے پہلے خواب کے سائے جاگنے لگتے ہیں
تم سے پہلے یاد تمھاری آنے لگتی ہے
دور تک پھول برستے ہی چلے جاتے ہیں
جب وہ ہنستی ہے تو ہنستی ہی چلی جاتی ہے
مصرعے کی نئی تراش کے نام پر ان دنوں لوہے کی سلاخ ایسے مصرعے تراشے جارہے ہیں۔یہ دراصل اسی خطابیہ بلند آہنگی کا حصہ ہیں جو آج کل ہمارا مجموعی سماجی رویہ بنتی جاتی ہے۔ٹی وی ٹاک شوز میں روزانہ قوم کے رہنما چیختے چلاتے نظر آتے ہیں۔شائستگی اور شیرینی ہماری گفتگو سے نکلتی جاتی ہے اور تو اور‘اب شاعر بھی یہ سمجھے بیٹھا ہے کہ آواز جتنی بلند ہوگی‘شعر اتنا ہی پر اثر ہوگا حالانکہ دھیمے لہجے کی تاثیر کو بلند لہجہ چھو بھی نہیں سکتا! یہ شاعر پھولوں بھری ٹہنی بناتا ہے‘کیل جڑا ڈنڈا نہیں۔۔۔
ہنسنے لگتا ہوں تو ہو جاتی ہیں آنکھیں پانی
رونے لگتا ہوں تو رویا نہیں جاتا مجھ سے
ہاتھ جلتے ہیں جھکاتے ہوئے مشعل قیصر
کوئی شعلہ ہے جو بویا نہیں جاتا مجھ سے
اک اور سر زمین تھی آنکھوں کے سامنے
اک اور آسمان بنا نا پڑا مجھے
منظر سے اپنی آنکھیں ہٹانا محال تھا
منظر کو سامنے سے ہٹانا پڑا مجھے
رات باندھی تھی کسی اور جگہ
دن کسی اور جگہ کھولتے ہیں
ہم وہ گم راہ کہ جو قدموں پر
نقشہ ارض و سما کھولتے ہیں
ہو چکے حرف پرانے قیصر
مکتبِ حرف نیا کھولتے ہیں
نذیر قیصر منظر بناتا ہے۔اس کا شعر بصری تاثر رکھتا ہے۔وہ اشیا اور مظاہر کی ترتیب اور جگہ بھی بدل دیتا ہے۔دیے کی جگہ ستارہ اور ستارے کی جگہ پھول رکھ دیتا ہے۔کئی بار وہ صرف منظر سامنے لا رکھتا ہے اور معانی از خود برآمد ہوجاتے ہیں۔ایک ثروت حسین تھا جو اپنی شاعر ی میں منظر سے منظر جوڑتا تھااور اپنی فنکاری سے مناظر میں معانی کی سیال رو دوڑا دیتا تھا وہ بھی اس طرح کہ مناظر ہی معانی بن جاتے تھے۔ایک نذیر قیصر ہے جو منظر کی زبان سے بولتا ہے۔فرق یہ کہ نذیر قیصر اپنی مرضی کا منظر بناتا‘ اس میں اپنی ترتیب سے اشیاء رکھتا ہے۔اسکا تلازمہ کاری کا اپنا انداز ہے جو ایک طرف روایتی تلازمہ کاری سے مختلف ہے تو دوسری جانب عصری شعری تلازمے سے بھی جدا ہے۔یہ دراصل ایک تخلیقی شاعر کا خود اختراع کردہ زاویہ نگاہ ہے جو منظر میں اپنی مرضی کا منظر دکھاتا ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ ہم بھی وہ منظر دیکھنے میں محو ہوجاتے ہیں۔
اترتی جاتی ہیں جیسے لَو یں سی پوروں میں
سنورتے جاتے ہیں تجھ کو سنوارتے ہوئے ہم
جیسے جیسے رات گزرتی جاتی ہے
شاخِ بدن پھولوں سے بھرتی جاتی ہے
نیند کی ٹہنی جھکی ہوئی تھی
میں نے ستارا چوم لیا تھا
میں کیسے سو جاتا قیصر
چھاتی پر اک پھول کھلا تھا
لفظوں میں جو دھندلی سی تصویریں ہیں
یہ اپنی برسوں کی کارگزاری ہے
نذیر قیصر نے پانچ حواس کی شاعر ی کی ہے۔حسن دیکھنا‘پھول سونگھنا‘شہد چکھنا‘سرگوشی سننااور بدن چھونا اسکی شاعری کو مرغوب ہے۔وہ دیے ستارے اور پھول سے ایک جتنی روشنی کشید کرسکتا ہے۔اس نے دراصل ایک خطرناک کام کیا ہے۔محبت کی شاعر پر بہت آسانی سے سطحیت اور کچی جذباتیت کا الزام آسکتا ہے۔بدن کی شاعر پرترنت عریانیت کا فتویٰ اترتا ہے۔کیا واقعی جسم ناپاک ہے؟نہیں۔نذیر قیصر بتاتا ہے کہ بدن کی سیڑھی سے روحانی ارتفاع حاصل ہوسکتا ہے (روحانیت کا لفظ یہاں ذہنِ انسانی کے لطیف تریں منطقے کے معنی میں استعمال ہواہے)۔یہ خطرناک کام اس نے اتنی مشاقی سے کیا ہے کہ شاعری لطافت سے ہمکنار ہوگئی ہے۔بس ایک احساس کی رو‘ جذبے کا نرم بہاؤ اور خیال کا کومل سراپا۔وہ حسن کو اس ڈھنگ سے بیان کرتا ہے کہ شاعری سیدھے سبھاؤ لطافت سے لطف میں ڈھل جاتی ہے۔
سب چراغوں نے لگا رکھی ہیں آنکھیں تجھ پر
سب چراغوں کوبجھا کر تجھے لے جاؤں گا
وہ دھوپ بن کے مرے ساتھ ساتھ چلتی تھی
میں سائے جوڑ کے شامیں بنایا کرتا تھا
وہ جلتے ہونٹوں پہ ہونٹوں کا سایہ کرتی تھی
کسی چراغ کی لَو تھرتھرایا کرتی تھی
میں سوچتا تھا اسے اور میرے سینے میں
وہ فاختہ کی طرح پھڑپھڑایا کرتی تھی
”محبت میرا موسم ہے“ نذیر قیصر کی شاعر ی کا تازہ مجموعہ ہے۔یہ موجود شعری منظرنامے میں ایک الگ ہی منظر کھول رہا ہے۔ان غزلوں سے اشعار چننا کارِ دشوار تھا کیونکہ پوری غزل ایک سی کو ملتا کے ساتھ روح پر اترتی ہے۔سادہ زبان‘پرتاثیر اظہار اور تخلیقی استعارہ سازی پوری شاعری میں رواں دواں دکھائی دیتی ہے۔اسکی نظمیں بھی اپنے تخلیقی رکھ رکھاؤ‘فطری بہاؤ‘لہجے کی شیرینی اور خیال کی لطافت میں غزلوں سے کم نہیں۔نذیر قیصر کی نظم دھیرے سے دل کے آنگن میں قدم رکھتی ہے۔حالیہ مجموعہ کلام میں نظموں کی خاطر خواہ تعداد نہ صرف نذیر قیصر کے ایک اور تخلیقی پہلو کی طرف اشارہ زن ہے بلکہ جدید نظم کے اپنے سرایت و نفوذ اور استحکام پر بھی دلالت کرتی ہے۔
نذیر قیصر نے شاعری کو تبدیل کیا ہے اور حسن کاری کی طرف تبدیل کیا ہے۔یہی شاعری کو اسکی دین ہے۔
شہزاد نیّر