Razm Arai Ki Ghazal
جناب خالد مصطفی کا اوّلین شعری مجموعہ ” خواب لہلہلانے لگے” جب ۴۰۰۲ء میں منظرِ عام پر آیا تو سنجیدہ قاری نے اس رکھ رکھاؤ والی غزل کا خیر مقدم کیا۔ ایک خاص تہذیبی سانچے میں ڈھلی ان کی غزل رزم کے استعاروں میں نرم بات کرتی ہوئی سب کو بھلی لگی تھی۔ تبصرہ نگاروں نے یہ بات محسوس کی کہ خاکی وردی میں ملبوس یہ شاعر حرب و ضرب کی اصطلاحات میں امن و محبت کی بات کرتا ہے اور وہ بھی شائستہ، شستہ،مہذّب لہجے میں۔ یوں یہ بات کہنے کی ہے کہ مسلّح افواج سے منسلک افراد میں امن کی خواہش اگر عام افراد سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہوتی۔ جنگ کوئی بھی نہیں چاہتا۔ فوجی بھی نہیں۔ ویسے بھی جنگ کی ہولناکی اور خوں آشامی کے ساتھ پہلی اور بنیادی مڈبھیڑ سپاہیوں ہی کی ہوتی ہے۔ بلا جواز جنگ کی خواہش ہمہ دم جنگ کے لیے تیار رہنے والوں میں بھی نہیں پائی جاتی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ عقب میں کھڑے ہو کر چیخنے والے چند بیمار ذہنوں میں جنگ و جدل اور کُشت و خون کی مریضانہ خواہش زیادہ نظر آتی ہے۔ یوں اگر
خالد مصطفی کے اشعار میں صلح اور آشتی کی حقیقی آرزو نظر آتی ہے تو یہ ” نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز” کی عملی صورت ہے!
تلوار میں نے ڈال لی واپس میان میں
رستہ مذاکرات کا ہموار دیکھ کر
صلح کی صورتیں تو بہت تھیں مگر
ہم ہی نادان تھے ، مشتعل ہو گئے
صلح کی با ت خالد ؔ کرو کو ئی اب
جتنے ہونے تھے شکوے گلے ہو گئے
یہاں مجھے نوّے کی دہائی میں قائم ہونے والی ایک امن تنظیم یاد آرہی ہے جس کا نام تھا SIP
(Soldier’s Initiative for Peace)۔یہ دونوں پڑوسی ممالک کی مسلّح افواج کے سبک دوش ہوچکے اعلیٰ افسران کی جانب سے امن قائم کرنے کی ایک کوشش تھی۔ اب بھی صورت حال وہی ہے۔ امن کی ضرورت خطّے کے تمام انسانوں کو ہے لیکن یہ سچ بولنا بھی بعض
اوقات مشکل لگتا ہے۔
اگر جھوٹ لکھیں تو فن میں خیانت
اگر سچ کہیں تو مسائل بہت ہیں
میں تو اپنی شکست پر چپ ہوں
ہاں! وضاحت سماج مانگتا ہے
آہن کی جھنکار سے غزل کی بحر کشید کرنا جنونِ سخن کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا۔ حرف کی دیوی سے مکالمہ، لمبے کھردرے حُکمی الفاظ (کاشن!) کے سائے سائے ہوتا ہے۔ رات دن حملہ، دفاع اور شکست و فتح سے مکالمہ ہو تو غزل کے دن رات بھی سالار، جنگ اور قیدی سے ترتیب پانے لگتے ہیں۔ ایسے میں عروسِ غزل سپاہیانہ ملبوس میں سخنِ دلنواز دان کرتی ہے۔ شاکر کنڈان نے ” اردو ادب اور عساکر پاکستان” کے سلسلے کی چار جلدیں شائع کر کے اس اہم اور مختلف طرزِ احساس اور ادبی اظہار کو دستاویز کیا ہے۔ یہ دفاع ِ وطن کے جذبے سے سرشار حرف و سخن کے اُن خادموں کا طرزِ احساس ہے جو امن کی کو ملتا اور عسکریت کی سخت جانی کے بین بین چلتا ہے۔ یہاں شاکر کنڈان
کے دو اشعار پیش ہیں جو اس صورتحال پر عمدگی سے روشنی ڈالتے ہیں۔
تذکرہ عشق کا ، بات اخلاص کی
ہم نے نوکِ سناں سے بھی اکثر لکھی
جنگ میں خون کے رنگ پیارے لگے
وقت پر بات انسانیت کی کہی (شاکرکنڈان)
خالد مصطفی کی غزل رزم میں بزم آرائی کی عمدہ مثال ہے۔ رَن میں بھاگتے دوڑتے استعاروں اور حرب و ضرب کی علامات سے ایسے ایسے اشعار ہوئے ہیں کہ غزل کے موضوعاتی کینوس میں وسعت آئی ہے۔ یوں بہت سے شعرا نے بھی غزل میں شکست و فتح،تیر
و کمان، لشکر و سپاہ باندھے ہیں لیکن حقیقی مشاہداتی سخن اورتخیلی،تصوّراتی گفتارکا فرق نظر آجاتا ہے۔
صف بندی کر رہے ہو بغیر انتباہ کے
آداب بھی تو ہوتے ہیں کچھ رز م گاہ کے
نہیں تھی میرے گھر کی چار دیواری بڑی مدّت
سو گذرے اس سے یونانی و تاتاری بڑی مدّت
یاروں کی بروقت کمک سے کیا حاصل
ڈھیر اگر اپنے لشکر ہو جائیں تو !
جدید تر غزل کا حالیہ منظر نامہ متنوّع اظہار سے عبارت ہے۔ حُسن کی اتنی صورتیں ہیں کہ رُو بہ رُو اورسُو بہ سُو سجی ہیں۔ ایک طرف دشت و قیس کے استعارے ہیں تو دوسری طرف عکس و آئینہ، چراغ وہوا اور خواب و تعبیرکے پیرائے میں عصری بات کہی جارہی ہے۔ خالدؔ مصطفی نے دل کی بات کا اظہار خاص عسکری لفظیات میں کیا۔ ذرا دیکھئے کہ بات کس خوبی سے ادا ہوئی ہے۔
اب کے تمہاری زد میں کوئی اور شخص ہے
ہم بھی کبھی ہدف تھے تمہاری نگاہ کے
سالارِ حُسن نے مجھے قیدی بنا لیا
پھر یوں ہوا کہ جنگ کا پانسہ پلٹ گیا
بے دخل کروں دل سے اُسے کیسے بھلا میں
دشمن بھی گھر آئے تو نکالا نہیں جاتا
معاملات محبت کو ہدف، جنگ اور دشمن کی لفظیات میں ادا کرنا خالدؔ مصطفی کی غزل کا اہم اور قابلِ توجہ پہلو ہے۔ ان کا فن غزل کے ابلاغی وترسیلی سلسلے سے منسلک ہے۔ یہاں بقدرِ ضرورت اشاریت اور رمزیت تو میسّر ہے لیکن پیچ در پیچ ابہام نہیں۔ معنوی اعتبار سے بات مکمل واضح اور مربوط کہنے کی روش انہیں مرغوب ہے۔ وہ غزل کے طلسم سے آگاہ بھی ہیں اور اس طلسم کو بروئے کار بھی لاتے ہیں۔ ایک
خاص چمک اور لپک اُن کے کئی اشعار سے یکلخت بر آمد ہو کر خوش ذوق قاری پر یک بہ یک ” حملہ” کر دیتی ہے۔
یوں تو ہم لوگ بلانے پہ بھی کم بولتے ہیں
پر جہاں کوئی نہیں بولتا ، ہم بولتے ہیں
ہم نے حیات پیٹھ پہ رکھ کر گذار دی
ممنونِ لطف ہم نہیں عالم پناہ کے
باہر ہوا مدار سے ، مرکز سے ہٹ گیا
اُس سے الگ ہوا تو میں خود سے بھی کٹ گیا
کسی بھی دور سے اپنا پتا نہیں ملتا
ہمیں تو سارے زمانے ترے زمانے لگے
اُس کی بات نمایاں جیسے نون نظر کے نقطے
میں خاموش ہو ں خالد ؔ ایسے جیسے خواب کا واؤ
خالد مصطفی نے بعض پُر اثر نظمیں کہی ہیں۔ نظم میں بھی انہوں نے،غزل کے شعر کی طرح،وحدتِ تاثر اور خیال کی اکائی کا خیال
رکھا ہے۔ ان کی یہ مختصر نظم دیکھیں جو ایک زمانے میں ” فنون” میں شائع ہو کر مقبول ہوئی تھی۔
ہم تو دریا کے دو کنارے ہیں
زندگی بھر جو ساتھ ساتھ چلیں
پھر بھی آپس میں مل نہیں سکتے
میں نے اتنا کہا فقط اُس سے
بات میر ی ابھی ادھوری تھی
اُس کی آنکھوں کے بند ٹوٹ گئے
حال ہی میں انہوں نے شہدائے گیاری کی برف برف یاد میں ایک پر اثر نظم تخلیق کی ہے۔ ” برف میں دبے فوجی کا ماں سے مکالمہ”۔ یہ نظم ماہنامہ ” بیاض” کے اندرون سر ورق پر چپھی تو اہلِ درد کے دل چھید گئی۔ ایسی نظموں کے باوجود مجموعی طور پر خالدؔ مصطفی کی نظم کو وہاں پہنچنے میں کچھ دیر ہے جہاں جدید نظم پہنچ چکی ہے۔ ان کی بہت سی نظمیں اس عمومی معیار سے نیچے ہیں جہاں سے اوپر نئی نظم بات کرتی ہے۔اگر نظم پر ان کی توجہ بھرپور رہی تویقینا ان سے اُسی معیار کی نظمیں ہوں گی جوآج کی جدید نظم نے قائم کر رکھا ہے۔
غزل میں اُن کا حصّہ قابلِ ذکر بھی ہے اور قابلِ قدر بھی۔ اُن کی تازہ غزلیں اپنے تیور اور لہجے میں بہتر سے بہتر ہوتی
جارہی ہیں۔ اُن کا سفر جاری ہے اور اُن کا اب تک کا کام ان کے آنے والے کام کا اشاریہ مرتب کر رہا ہے۔
شہزاد نیّر