Girah Khulnay Tak Ka Tanqeedi Jayeza

90 Views

صاحب کتاب : شہزاد نیّرؔ
مضمون نگار:ورید اللہ ورید

گرہ کھلنے تک کا تنقیدی جائزہ

قیام پاکستان بعد سے لے کر اب تک اردو نظم کی شکل و صورت، انداز بیان، زبان، موضوع اور دوسری تبدیلیوں میں میرا جی اور ن م راشد کی قائم کردہ روایات کو زیادہ دخل رہا ہے
جدید سے جدید شاعر میرا جی اور ن م راشد کے شعری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں
موجودہ دور میں زیادہ تر شعرا طبقہ آزاد نظم سے علاقہ رکھتا نظر آتا ہے
نظم جو اپنے نام سے ظاہر ہے یک موضوعی نظم صرف کسی ایک موضوع پر خیالات یا جزبات کے اظہار کا نام نہیں. بلکہ خیال میں ابتدا ارتقا اور انتہا بھی ہونی چاہئے. اردو نظم کو بےپناہ وسعت حاصل ہے. اس میں حسن و عشق کے جزبات سے لے کر تمام معاشرتی مسائل کو بھی فنی رچاؤ کے خوبصورتی سے سمویا جا سکتا ہے
یہ کام ابتد سے جاری ہے. آج جو نظم کہی جا رہی ہے وہ ایک. بھرپور نظم ہے جس میں نتائج اخذ کرنے کی پانچوں سطحیں بروئے کار لائ گئی ہیں
زیر موضوع جناب شہزاد نیر کی کتاب ٠٠ گرہ کھلنے تک ٠٠ تک ہے جو میرا پسندیدہ نظم گو ہے. اس کتاب میں اس نے جو نظمیہ رویہ اختیار کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے. ان کی نظمیں کثافت سے عاری اور لطافت سے مالامال ہیں
وہ انتہائی حساس شاعر ہے. جب اس حساسیت انتہا کو پہنچتی ہے تو؛ ساختیات، ہدایتکار، کفن چور، ویلنٹائن ڈے اور اس جیسی کئی بہترین نظمیں اس عمدگی کے ساتھ لفظوں کے پیرائے میں ڈھال کر قاری کے آگے رکھ دیتا ہے کہ وہ اس کی سحر گری سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا. اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انسانی کردار کو صرف لفظ” کٹ” یعنی موت یا امر الہی تک محدود کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے

ذرا مر کر دکھاؤ کٹ
(ہدایتکار)
وہ وقت سے سوال اس طرح کرتا ہے. جوابات خود بخود ابھرتے ہوئے نظر آتے ہیں

وقت کے گہرے سناٹے سے
تند سوال کا اک کنکر ٹکرا جائے تو
لاکھ جواب ابھر آتے ہیں

وہ تجسسات کی گھمبیر لہر میں بہتا ہوا محسوس ہوتا ہے. اسے کسی کی تلاش ہے اور یہ تلاش انسان سے خدا کی بھی ہو سکتی ہے. کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ تلاش آخر کس چیز کی ہے جو وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ
یہ عجب منطقے ہیں کہ ان پر
کوئی حرف لکھنے لگیں تو سخن ڈولتا ہے
قلم کا قدم راستہ چھوڑتا ہے

اے تلاش حسین حسن پردہ نشیں
تیرے لفظوں کی تعبیر سے
تیرے لہجے کی تفہیم تک
تیری آنکھوں کی تفسیر سے
تیرے خوابوں کی تجسیم تک
کچھ بھی کھلتا نہیں

کچھ بھی کھلتا نہیں ہے
مگر تیرا بندے قبا ہو کہ ہستی کا عقدہ
تجسس گرہ کھولتا ہے
تجسس بہت بولتا ہے

تیرے آب گم کی تلاش پر
میری زندگی کی اساس ہے

“کفن چور” پڑھتے ہوئے میرے آنسو بہہ نکلے اور میں بھی نیر جی کے ساتھ شامل دعا ہوا

پردہ خاک میں لپٹے ہوئے بے جان وجود
باعثِ ننگ زمیں ہوں مگر اک بات بتا
جسم مٹی ہو تو کپڑوں کی ضرورت کیا ہے

دیکھ پیوند زمیں میرے تن عریاں پر
داغ افلاس کا پیوند اجازت دے دے
مر کے مرتے ہوئے انسان کو زندہ کردے
اک ملبوس کمانے کی اجازت دے دے
ورنہ بھوکی ہے بہت خاک کہاں دیکھے گی
جسم کھا جائے گی پوشاک کہاں دیکھے گی

وہ خود سے باتیں کرتا ہے. اس کا خود کو ہر بلاوا آخری ہوتا ہے کیونکہ وہ وقت کے نہ مڑ کر آنے کا قائل ہے

میرے خواب تھے اور تم؟
تم حقیقت میں کھوئے ہوئے بھول بیٹھے
کہ دنیا کے جنگل میں خوابوں کی سمتیں تو کیا
لوگ آنکھیں بھی کھو بیٹھتے ہیں
تمہاری کئی سال کی بےرخی
سے میں کمزور ہوں اور تم
آج بھی تیز رفتار ہو
دیکھو لحظہ بہ لحظہ تمہارے قدم کی
یوں ہی دور ہوتی ہوئی چاپ سنتا رہا
تو میں چپ چاپ مرجاؤں گا
اور تم کو خبر بھی نہ ہوگی

ویلنٹائن ڈے پڑھتے ہوئے ذہن میں منیر نیازی کی کینیڈین دو شیزہ سے نظر نظر میں ملاقات کا منظر گھومتا ہے. محسوس ہوتا ہے ایک دو شیزہ جو خود پھولوں کی مہک لیے ہوئے ہے ایک پھولوں کی ریڑھی لگائے بیٹھی ہے. شاعر سوچتا ہے پھول کو پھولوں کے بیوپار کی کیا ضرورت؟
مگر پیٹ……
کتنا چاہا ہے کہ میں پھول خریدوں تجھ سے

اور پھر پیار سے تجھ کو ہی تھمادوں لیکن
آخری پھول کی مہکار تیرے ہاتھوں سے
آج کی شام کا بازار میرے ہاتھوں سے
دھوپ کے ساتھ کہیں اور پھسل جائیں گے
مفلسی ایک طرح وار کیا کرتی ہے
ایک بار پھر شہزاد نیر تجسس میں ہے. آخر یہ کیسا تجسس ہے، اب کی بار پہلے والا تجسس نہیں. یہاں آگے بڑھنے کا تجسس ہے. سوچنے کا تجسس ہے. کھلنے کا تجسس

لگاتار چلنے دے اور آگے بڑھنے دے
سوچوں کے پردے اترنے دے
اب دھیرے دھیرے مجھے کھول
آہستہ آہستہ خود مجھ پے کھل
جب تلک اک تجسس رہے گا
تعلق رہے گا
کیا واقعی جگ بیوپاری ہے. ہاں اک صدا در دل سے وا ہوتی ہے پھر وہ کہتا پے
آپ سمیٹوں پگ پگ چھالے، آپ سنمبھالوں نیر
کون چنے میرے براہ کانٹے کون سہے میری پیڑ
اس کے ہاں اداسی کی بہت سی پرتیں ہیں. یہ انتہائی خوش آئند دریافت ہے

اداسی جاگتی ہے سوچتی ہے سو نہیں سکتی
اداسی کاٹتی ہے کٹ نہیں پاتی
دلوں میں بانٹتی ہے خود کو لیکن بٹ نہیں پاتی
کہنے کو بہت کچھ ہے مگر میری وسعت افلاک جتنی نہیں
نوحہ گر کہانی پھر کبھی
شہزاد نیر صاحب کے لئے بہت دعائیں

Facebook Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.