A Short Interview With Shahzad Nayyar
شہزاد نیر سے ایک مختصر مصاحبہ
سوالات :مافات رضا
Forum : creativity insights
سوال1: یوں تو آپ تعارف کے محتاج نہیں ہیں مگر اپنے بارے میں بتائیں آپ خود کو کیسے بیان کریں گے؟
جواب: خود کو بیان کرنا اتنا آسان کہاں ھے۔ ہم ساری عمر بھی نہیں جان پاتے کہ ہم کیا ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔ کبھی کبھی تو خود پہ حیرت ھوتی ھے کہ کرنا کیا تھا اور کیا کیے جا رہے ہیں۔۔۔۔ بہرحال خود کو بیان کرنے کی کوشش کے طور پہ عرض کرتا ھوں کہ میں انسان کو انسان کا پیمانہ مانتا ھوں اور سمجھتا ھوں کہ ضابطے خود انسان سے پھوٹتے ہیں ، اور دوسرا یہ کہ آزاد روح ھوں ۔۔۔ شخصی ازادی کو نہایت اہم معاشرتی وصف سمجھتا ھوں.
سوال2:کیا معاشرہ ادب سے متاثر ہوتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا ہمارے ادب میں کہیں کمی ہے یا اس کے فروغ میں ؟
جواب:معاشرہ ادب سے متاثر ھوتا ھے لیکن یہ عمل سست رو ھوتا ھے۔ ہماری طرف خواندگی کم ھے اور اس سے بھی کم غیر نصابی کتب بینی کا شوق ھے ۔ اب ایس ایم ایس ، وٹس ایپ اور فیس بک وغیرہ کے ذریعے سے ادب کی ترسیل کا عمل ذرا تیز ھوا ھے۔ اس میں بھی مسئلہ یہ ھوا کہ معیاری و غیر معیاری کی یکساں ترسیل جاری ھے۔ ادب میں کمی نہیں ھے ، ادب کو زندگی کا رہنما سمجھنے والوں کی کمی ھے.
سوال 3: سر کس چیز نے شاعری کی طرف راغب کیا اور آپ نے شاعری کو ہی اظہار خیال کا ذریعہ کیوں بنایا ؟
۔جواب: ساتویں میں پڑھتا تھا کہ شعر کہنے لگ گیا۔ خود ہی راغب ھوا۔پہلے پہلا اظہار ھوا اور وہ بھی نظم میں ۔۔۔۔ پہلی محبت تو بعد میں ھوئی !!
نثر پڑھی بہت ، لکھی کم ، ڈائری لکھتا تھا سکول کے زمانے میں بھی۔ پھر کافی تنقیدی مضامین لکھے۔ مائکرو فکشن لکھا۔
شاعری اس لیے خوش آئی کہ اس میں کم کہہ کر بہت کچھ کہا جا سکتا ھے ۔ الفاظ شاعری میں بہت ہی وسعت سے اتے ہیں ۔۔۔ دوسرا یہ کہ مجھے شاید شاعر کے طور پہ دیکھنے کا زاویہ بھی عطا ھوا تھا.
سوال4:.شہزاد بھائی آپ کی نظم ہدایت کار کئی بار پڑھ چکا ہوں اکثر تذکرہ بھی رہتا ہے دوستوں میں ۔۔۔ اس نظم کے بارے میں کچھ بتائیں ؟
۔جواب: ہدایت کار آپ ایسے خوش فکر دوستوں کو بہت پسند آتی ہے۔ یہ اس نظم کی خوش بختی ھے۔
ھوا یوں کہ مجھے پی ٹی وی کے سیٹ پر ایک ڈرامے کی شوٹنگ دیکھنے کا اتفاق ھوا۔ لائٹس ، کیمرا ، ایکشن ۔۔۔۔۔۔ یہ ترتیب کہیں ذہن میں رہ گئی ۔۔۔۔۔ پھر ایک دن بہت بعد میں یہ نظم ھوئی اور ھوتی ہی چلی گئی ۔۔۔۔ نظم کہہ کر میں بھی آبدیدہ ھو گیا کہ میں بھی تو ایک چھوٹا سا کردار ھوں جسے وہ جلد ہی مار ڈالے گا !!!
سوال5:سر آپ غزل اور نظم بہت خوبصورت لکھتے ہیں۔ آپ کے نزدیک شاعری میں سب سے اہم بات کیا ہے ؟ کیفیت کرافٹ یا مضمون؟اگر چہ یہ تینوں ہی اہم ہیں۔
جواب: میرے نزدیک سب سے پہلے تو شاعرانہ طرزِ احساس اہم ھے۔ درخت ، عمارت ، رشتے ، واقعات ، تاریخ اور سیاست ۔۔۔ ان سب کو دیکھنے کا ایک شاعرانہ زاویہ ھوتا ھے جو حیاتیات دان ، انجینئر ، ماہرِ سماجیات ، عام ناظر ، تاریخ دان اور سیا ست دان سے جدا زاویہ ھے۔ پہلے تو شاعرانہ زاویہ ھو پھر قوتِ اظہار ھو جو زبان اور کرافٹ سے بنتی ہے۔ انہی چیزوں سے مل جل کر برتر سطح کی شاعری وجود میں آتی ھے۔
مطالعہ ، مشاہدہ اور ریاضت شاعری کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہیں۔
سوال6: کیا آپ کے نزدیک ادب کی عمر ہوتی ہے وہ عمر جس کے بعد ادب قدرتی موت مر جاتا ہے ؟ اور کیا ہر ادیب صرف اپنے وقت کی داستان کہتا ہے ؟
جواب: ہر ادب تو نہیں مرتا۔ 5 ہزار سال پرانے نمونے بھی کہیں پڑے ہیں۔ شیکسپئر ، سعدی ، رومی ، غالب، اقبال ، بھرتری ہری ، ورجل ۔۔۔ یہ سب کب مرے ہیں ! ہاں جھاڑ جھنکار تاریخ کا جاروب کش صاف کرتا رہتا ھے ! ادیب اپنے وقت کی داستان کہتا ھے لیکن اسی میں وہ ماضی اور مستقبل بھی کہہ جاتا ھے ۔ اسی سے وہ ہر دور سے متعلق بھی رہتا ھے.
سوال7.آپ کے نزدیک آج کیسے ادب کی ضرورت ہے ؟ کیوں کہ یہ وہ سوال ہے جس کو شاید نئے شاعر ادیب کم ہی سوچتے ہیں۔
۔جواب:اردو ادب کا سوچا جائے تو ان دنوں انسان دوست ، زندگی آمیز اور زندگی آموز ادب کی ضرورت ھے۔ توہم اور اساطیر کے زمانے لد گئے۔ اب تو جو شعر ، افسانہ یا ناول عہدِ موجود کی دانش اور معاشرت کو سمو کر آئندہ کی تصویر کشی کرے ایسے ادب کی ضرورت ھے.
سوال8:ایک اہم سوال .. شاید ابسٹریکٹ سوال ہے …آپ کے نزدیک تخلیق کیا ہے؟
۔جواب:تخلیق ذہنِ انسانی کے بے پناہ امکانات میں سے ایک ھے۔ تخلیق ایک ایسا پراسرار عمل ھے جسے خود خالق بھی پوری طرح نہیں سمجھ پاتا۔ شعور و لاشعور کی باہمی کارفرمائی سے اشیا و خیالات کی ایک نئی ترتیب کا نام تخلیق ھے۔ شاعری و ادب میں نئے جہانوں کی تعمیر ہی تخلیق ھے۔ دیکھیں تصور ، عمل سے پہلے ھوتا ھے۔ بغیر تصور اور تخیل کے ، عمل کا خاکہ نہین بن سکتا۔ آئن سٹائن نے کہا تھا تخیل علم سے بھی اہم تر ھے !!
اقبال کا ایک شعر ھے ؎
کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد
سوال9:کیا سوشل میڈیا کا ادب سے متعلق نوجوانوں کی تخلیق پر کچھ اثر ہے ؟ کیوں کے فیس بک کے شاعر تو اب لوگوں کو میسج کر کر کے کہتے ہیں کہ میری غزل پر کمنٹ کیجیے ۔میری نظم پر رائے دیجیے اور ان کی خواہش کے مطابق رائے نہ ہو تو آپ انکی نظروں کے ساتھ ساتھ ان کے دوستوں کی نظروں سے بھی گر جاتے ہیں۔
جواب:سوشل میڈیا نے ادب کی تخلیق ، ترسیل اور تحسین کے زاویے کسی حد تک بدل دیے ہین۔ اب جو کوئی شام کو کہتا ھے اسی شام فیس بک پر آویزاں کر دیتا ھے۔ پہلے وہ کسی کو دکھاتا سناتا تھا ۔۔۔۔ ادبی پرچوں میں چھپتا تھا ، ایک چھلنی مدیر کی ، دوسری احباب کے خطوط کی ۔۔۔۔ اب تو جلد بازی سی ھے ایک ۔۔۔ پھر بھی سوچ سمجھ کر کمنٹ کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ ایسے میں بعض فیس بک ادبی گروپ اچھا کام کر رہے ہیں اور دیکھ کر ہی چیز لگاتے ہیں جیسے انحراف ، سنہری حلقہ وغیرہ.
.سوال10: “گرہ کهلنے تک میں ایک ” طویل نظم ہے آپکی.. طویل نظم لکھنے کا خیال کیسے آیا ؟ آج کے دور میں جب شاعر چهوٹی نظم یا غزل لکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں.
جواب: تاریخِ ادب میں طویل نظموں کا کافی چلن رہا ھے۔ ہمارے اپنے کلاسیکی ادب میں مثنوی اور حماسہ ( رزمیہ ) طویل نظمیں ہی ہیں۔ ایلیٹ کی ویسٹ لینڈ ، راشد کی حسن کوزہ گر ، وزیر آغا کی ” اک کتھا انوکھی ” جدید ادب میں طویل نظموں کی مثالیں ہیں۔
میرا خیال ھے اگر تخلیقی تجربہ اپنی کمیت اور ماہیت میں بہت بڑا ھو ، انفس و آفاق کو محیط ہو تو اس کے لیے طویل نظم کا فارمیٹ مناسب رہتا ھے.
میں کافی عرصہ سیاچن گلیشئیر کے علاقے میں تعینات رہا۔ ایک عجیب لینڈ سکیپ ، ایک درد ناک زندگی ، برف کا جہنم ، سوچیں تک جم جاتی ہیں وہاں۔ اس تجربے نے میرے اندر باہر بدل دیے ۔۔۔ وہاں سب فلسفے ڈھیر ہو گئے ، فکر منجمد ، بس زندگی کو حرارت کی فکر ۔ اس پس منظر میں میں نے طویل نظم ” خاک ” لکھی۔ اس میں انسان کا انسان سے تصادم ، انسان کا فطرت سے تصادم اور پھر وقت سے تصادم ۔۔۔۔ ان سب کا بیان آیا۔ اس پہ کافی تنقیدی کام ہوا اور اسے جید نقادوں نے اردو ادب کی اہم طویل نظم قرار دیا۔ دوسری نظم ” نوحہ گر” ہے جو انسانی تاریخ کے مقتولوں کا حساب جوڑتی ھے۔ جب بھی ، جہاں بھی اور جس سبب سے بھی انسان قتل ھوں وہ میری آنکھ میں ٹھہر جاتے ہیں ۔۔۔۔ یہ نظم لاوجود سے وجود ، اور وجود سے عدم تک آتی ہے۔۔۔۔ تو ایسے بڑے موضوعات کسی چھوٹی نظم میں سما ہی نہیں سکتے تھے ۔۔۔ یہ دونوں نظمیں میں نے پانچ پانچ سال لگا کے لکھیں اور سچ پوچھیں تو کسی حد تک مطمئن ھوں کہ ذرا سا کام کر لیا ادب میں۔
۔۔۔۔۔۔۔