Kaya Mein Sooraj Pe Roshni Daloon
کیا میں سورج پہ روشنی ڈالوں
تحریر : شہزاد نیر
اردو کی دسویں جماعت کی کتاب میں ایک کہانی تھی ” گھر سے گھر تک”۔ سکول میں پڑھنے سے پہلے ہی گھر پہ پڑھ لی۔ پھر بار بار پڑھی۔۔۔۔پھر خون میں رواں ہوگئی۔یہ محترم احمد ندیم قاسمی سے پہلا تعارف تھا۔ اس کے بعد دل سے کہانیاں گذرنے لگیں، روح پر نظمیں گرتی رہیں ، دشت جاں پر غزلیں ٹپک پڑیں۔ آسمان کی پوجا دور ہی دور سے ہوتی رہی۔
اس دن میں صبح سویرے گوجرانوالا سے چل پڑا تھا۔ کلب روڈ پر واقع مجلس ترقی ادب کے دروازے تک تو میں تازہ دم تھا،اس سے آگے توانائی ساتھ چھوڑ گئی۔ ادھر ادھر گھومتا رہا۔ گیٹ کے ساتھ ہی کپڑے کی چھت والا چائے خانہ تھا۔ مٹکے سے پانی پیا تو بھوک یاد آئی۔ چائے بسکٹ نے بھوک کو تو پرے دھکیل دیا پر ہمت کہاں سے آتی۔ جیب میں رکھی دو غزلیں بہت بھاری لگنے لگیں۔
قدموں نے مجھے اندر کا راستہ دکھایا۔ نیم پختہ روش جو گیٹ سے گھوم کر پرانی طرز کی عمارت تک جارہی تھی، میری آہستہ خرامی کا جواز بن گئی۔ سامنے لان نظر آیا جسے باغ کہنا چاہیے۔ اونچے گھنے درخت، پھولوں کے پودے اور گھاس ہی گھاس۔میں عمارت کو جانے کی بجائے باغ کو چل دیا۔ چوری چھپے عمارت کی طرف بھی دیکھتا رہا۔ بظاہر چہل قدمی کرتے ہوئے دائرے کا رداس بڑھاتا رہا۔ عمارت قریب آنے لگی۔ کچھ حوصلہ پا کر قدم برآمدے کی طرف اٹھ گئے۔دفتر کے باہر خوش خط تختی نظر آئی ” آحمد ندیم قاسمی ” قدم پھر باغی ہو چکے تھے۔
“کس سے ملنا ہے؟”
“جی قاسمی صاحب سے”
“تو مل لیجیے” کس سہولت سے کہہ دیا گیا۔
میں نے بے یقینی سے دیکھا ” میں انہی کے دفتر میں ہوتا ہوں، چلیے آپ کو ملوا دیتا ہوں”۔
وہ کھڑے ہو گئے۔ ہاتھ ملایا اور چائے منگوا لی۔ میں صوفے کے کنارے پر اٹک گیا۔ وہ مجھ سے میرا پوچھتے رہے۔پتہ ہی نہیں چلا کب غزلیں جیب سے نکل کر ان کے ہاتھ اور پھر بریف کیس میں چلی گئیں۔
باہر نکلا تو یقین نہیں آرہا تھا۔ نہ خود پر نہ اس دن پر۔ ڈائری نے مجھ سے یہ جملہ لکھوایا ” اتنے شفیق، اتنے محبت بھرے، لگا وہ مجھے پہلے سے جانتے تھے۔ آج تو میں ” گھر سے گھر تک ” ہی گیا”۔ یہ احمد ندیم قاسمی صاحب سے پہلی ملاقات تھی۔
میں سیاچن کے محاذ پر تھا جب ان کا پہلا خط برف میں گلاب کھلا گیا۔ ” آپ کی غزلوں میں بڑی چمک ہے۔ زیر ترتیب فنون میں درج ہوں گی”۔
یہ خط میں اپنے ہم کاروں کو دکھاتا پھرا۔مجھے اپنا آپ اچھا لگنے لگا۔پھر یہ گلاب کھلتے ہی رہے۔ کئی بار میں انہیں جوابی خط اس باریک چھال پر لکھتا جو شمالی علاقوں میں پائے جانے والے ایک درخت کے نرم تنے سے نکالی جاتی ہے۔ اس پر وہ بہت خوش ہوتے ۔
لاہور میں تعینات ہوا تو ملاقاتیں باقاعدہ ہو گئیں ۔ ادب، صحافت، ملکی معاملات اور فوجی زندگی پر گفتگو ہوتی۔ وہ از رہ شفقت کوئی بات پوچھ کر مجھے بھی سنتے۔ شگفتہ مزاج، نرم خو، تہذیب و شائستگی کا بہتا جھرنا۔۔۔۔۔
اور میں بھیگتا رہا برسوں۔
فوج سے متعلق بات ہوئی تو منصورہ احمد نے کہا ” فوجیوں کے لیے ایک سپر سٹور ہوتا ہے جہاں سے انہیں ضرورت کی اشیا آدھی قیمت پر ملتی ہیں” میں نے سی ایس ڈی ( کینٹین سٹورز ڈیپارٹمنٹ ) کے بارے میں وضاحت کی کہ وہاں واقعی معمولی سی ( لگ بھگ 5 فیصد) رعایت ہوتی ہے لیکن وہاں سے ہر کوئی خریداری کر سکتا ہے صرف فوجی نہیں۔ اس پر قاسمی صاحب تو حیران ہوئے لیکن منصورہ احمد ماننے کو تیار نہیں تھیں۔ میں نے مال روڈ پر واقعی سی ایس ڈی کی لوکیشن سمجھائی اور اصرار کیا کہ آپ اگلے ماہ کی خریداری وہیں سے کریں۔ کسی اگلی ملاقات پر انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی بہن کے ساتھ گئی تھیں اور خریداری بھی کی۔ میں خوش ہوا کہ یہ عام سی غلط فہمی تو دور ہوئی۔
ایک دن منصورہ احمد نے دوپہر کا کھانا لگوا دیا۔ احمد ندیم قاسمی اور میں۔۔۔ایک ساتھ کھانا۔ دسویں میں پڑھتے ذہن کو یہ سوچ چھو بھی کیسے سکتی تھی ۔ اس پر وہ کبھی سالن آگے کر دیتے اور کبھی پلیٹ۔ مجھ پر گھڑوں پانی پڑ جاتا۔ میں کھانے کے ساتھ خوشی کے آنسو پیتا رہا۔
جب کبھی میں اجازت طلب کرتا کہ باہر جا کر سگریٹ پی آوں تو وہ کہتے ” یہیں بیٹھ کر پئیں ۔ مجھے اس کی خوشبو اچھی لگتی ہے۔ میں نے بہت سال پیے۔ اب چھوڑ دیے ہیں”۔
وہ الحمرا ہال نمبر 3 کے طویل زینے کے پہلے قدم پر رک کر اوپر کو دیکھتے ہیں۔ میں لپک کر نیچے آتا ہوں۔ وہ میری دست گیری فرماتے ہیں۔ ان کا ہر قدم آہستہ سے میرے دل پر آن پڑتا ہے۔ وہ دشواری محسوس کرتے ہیں پھر بھی مجھے ساتھ لے کر سہج سہج اوپر جاتے ہیں۔
ملاقاتیں کبھی کلب روڈ اور کبھی ٹمپل روڈ پر واقع اساطیر کے دفتر میں ہوتی رہیں اور میں دامن میں پھول ستارے سمیٹتا رہا لیکن اس دن تو ان کے گھر جانا نصیب میں ہوگیا۔
منظر حسین اختر نے بتایا اور پوچھا ” قاسمی صاحب علیل ہیں۔ عیادت کو چلیے گا؟”
انہیں سانس کی تکلیف تھی۔ جلد ہی ہم انہیں آرام کرنے کی گذارش کر کے دوسرے کمرے میں آ گئے۔ میں وہ سادہ سا گھر دیکھتا رہا جہاں سے ہر صبح آفتاب پھوٹتا اور عالم میں کرنیں بکھیر کر شام کو واپس آتا تھا۔ اس دن ناہید قاسمی آپا نے چائے کیا پلائی ، دریا پلا دئیے۔ خود ان کی علم و ادب اور شاعری پر نگاہ حیران کن تھی ۔
ز کوئے یار می آید نسیم باد نوروزی
دسمبر کا کوئی دن تھا۔ وہ دفتر کا کام تو کر رہے تھے لیکن تھکے تھکے۔ فرمانے لگے ” بیٹا آج میری طبیعت کچھ اچھی نہیں، بات نہ کر پاوں گا”۔ انہوں نے مفلر کس کر لپیٹا اور لکھنے لگے۔
میں دیکھتا رہا۔۔۔ ذہن انسانی کی عظمت، فکر و خیال کی رفعت، تکلم کی حلاوت، افکار و کردار کی صلابت۔۔۔۔۔۔۔ تھکے تھکے سے احمد ندیم قاسمی لکھتے رہے۔ پہلے تو سورج چمکتا رہا پھر قطرہء اشک میں جھلملانے لگا۔
آنسوو! یہ افتخار میرے پوتوں نواسوں اور ان کے پوتوں نواسوں کو منتقل ہوتا رہے کہ میں نے احمد ندیم قاسمی کی آنکھیں دیکھ رکھی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہزاد نیر