Zia Hussain Zia Ka Novel

324 Views

اِلٰہیاتی نظامِ فکر پر فلسفہ و منطق کا اطّلاق عباسی دورِ خلافت ہی میں شروع ہو گیا تھا ۔ اس پر امّتِ مسلمہ میں بہت اختلافات برپا ہوئے ۔ اکثر علما ء کا خیال تھا کہ مذہبی فکر کی اُلوہی حقیقت کو زمینی علوم و دلائل کی روشنی میں پرکھنا اور عقلی بنیادوں پر جانچنا سراسر غلط ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ےہ دو یکسر مختلف نظام ہائے فکر ہیں اور ایک پر دوسرے کے اطّلاق سے استناد کی کوئی صورت نہیں نکل سکتی ۔ باےں ہمہ انہوں نے فلسفےانہ افکار کی جانچ پڑتال اور ردّوقبول کے لیے دینی علوم سے رجوع کرنے کو برا نہ جانا !

معتزلہ، اشاعرہ، اخوان الصّفا وغیرہ کی تحریکیں دراصل مذہبی علومِ نقلی کو فلسفےانہ علومِ عقلی کی روشنی میں دیکھنے سے عبارت ہیں ۔ اور بعض مواقع پر، ہر دو کے ادغام سے ایک ایسا نظام ِایقان و عمل مرتّب کرنے کی کوشش جو سوچنے والے ذہن کی تشفی کر سکے ۔ اس طرح دینی مسلّمات کو بغیر سوچے سمجھے ماننے والے عامتہ المسلمین اور تقلیدی علماء کے شانہ بشانہ، مسلم عقلیات کا بھی اِرتقا ہوتا رہا ۔

اسلامی دور ِ حکومت میں اندلس اِس فکر کا بڑا مرکز بنا ۔ اندلسی مسلم فلاسفہ کے پیش ِ نظر یونان کی عظیم الشان روایتِ فلسفہ تھی ۔ اس علمی فکر سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے مسلم فلسفیوں نے ایسے نظام ہائے فکر تشکیل دیئے جن کی بنیادیں عقلی علوم منطق و فلسفہ پراستوار تھیں ۔ ابن ِ رشد، ابنِ مسکویہ، ابنِ طفیل، ابنِ باجہ وغیرہم ایسے ہی فلسفی تھے ۔ دوسری طرف مذہبی اعتقادات خصوصاً اصولِ دین پر کسی بھی فکری سر گرمی کے مخالف علما ء تھے مثلاً ظاہر یہ (جو متن کی فقط لفظی تعبیر کے قا ئل تھے) ۔ ایسے علما ء نے آزادانہ فکری سر گرمی کی بنا پر مذہبی متون کی تشریح و تاویل کو کفر، الحاد اور زندقہ کے مترادف قرار دیا ۔ نتیجتاً منطقی طرزِ استدلال سے استخراجِ نتاءج کرنے والے سینکڑوں نابغے موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ۔

دوسری طرف اندلس ہی میں شیخ الاکبر ،محی الدین ابنِ عربی نے متصوفا نہ علوم میں بے مثال کام کیا ۔ ان کے پیش کردہ نظریہء و حدت الوجود کو سرمدی نفوذ حاصل ہوا ۔ اس نظریے سے وابستہ صوفیا و مفکرین کو تاریخ کے مختلف ادوار میں کفر والحاد کے فتاوٰی کا سامنا رہاپھر بھی فکرکا یہ زاویہ آج تک پھل پھول رہا ہے ۔ فلسفیانہ تصوّف کی بنیاد ’صوفیانہ تجربہ‘ پر استوار ہوئی ۔ یہ الگ بات کہ ایسے تجربے کے منطقّی استنادکا مسئلہ ہنوز حل طلب ہے ۔ علامہ اقبال کے خطبات میں بھی یہ مسئلہ سر اُٹھاکر لاینحل رہتا ہے ۔ عام طور پر ظاہری دلیل ومدلول کے طریق پر صوفیا نہ کشوف کو پرکھنے کی روایت موجود نہ رہی ہے ۔ غالبا ً یہی وجہ ہے کہ متصوفانہ روشں پر چلنے والے انفرادی سطح پر ہی رہے اور یہ طریق تعمیم پر اُتر کر عوامی سطح پر بھی نہ آسکا اور نہ ہی شخصی صداقت، عمومی صداقت بن سکی ۔ اس کے بر عکس سائنسی منہاج، عقلی استدلال کے باعث زیادہ مقبول ہوئی کیوں کہ اِس میں علّت و معلول کا مربوط نظام ہے ۔ اب جو بھی چاہے، بیٹھ کر ایٹم بم تک کا فارمولا سمجھ لے!

انسان کے فکری و عملی ارتقا میں ایک بڑا دھماکہ یورپی نشاۃِ ثانیہ کی صورت میں ہوا ۔ اس کے بعد تو، گویا دبستاں کھل گیا ۔ نہ صرف یہ کہ قدیم علوم و فنون میں بے پناہ ترقی ہوئی بلکہ علمی تخصُّص کے رجحان نے بے شمار نئے علوم و فنون کو جنم دیا ۔ ایک بار پھر نئے سرے سے مذہبی اعتقادات و توضیحات، سائنسی وجوہ کی زد پر آگئے ۔ یہ عہد اب تک جاری ہے اور دلیل و منطق  اس کی علمی منہاج بن گئی ۔ علمی دباوَ اس حد تک بڑھاکہ تقلیدی علماء بھی مذہبی احکام و اعمال کی’ حکمت‘ تلاش کرنے کے نام پر’ مصروفِ تحقیق ‘ ہوگئے ۔

اگرچہ یہ کام بمشکل ہی منطقی حریت فکر کے زمرے میں آسکتا ہے کیونکہ اس میں تحقیق کے نتاءج پہلے سے متعیّن کر لیے جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس خالص علمی طریق میں دےانت دارانہ عقلی سرگرمی اور علمی اخلاص پر اعتماد کا اظہار ہوتا ہے اور ےوں نتیجہ آخر میں ہاتھ لگتا ہے جو ضروری نہیں کہ ماقبل نتاءج سے تطابُق بھی رکھتا ہو ۔ ان دنوں مذہبی اعمال و عقائد کی تشریح میں سائنسی و عقلی علوم سے بے پناہ استفادہ کیا جاتا ہے لیکن عقل و سائنس کی برتری کا خیال بھی دل میں نہیں لاےا جاتا!

اس عہدِ دلیل میں مشاہدہ و اعتقاد کا ٹکراوَابھر کر سامنے آےا ہے ۔ استدلالی طرز ِ فکر،سکّہ جاریہ بنی،تشکیک، علمی خاصہ بن کر اُبھری ۔ کہیں کہیں مذاہب کی الٰہیاتی حیثیت پر بھی سوالیہ نشان لگے ۔ نئے علوم و فنون کی روشنی میں قدیم متون کا ازسرِ نو جائزہ لینے کی روشں عام ہوئی ۔ ادب میں اس کی دلچسپ مثال ’’تانیثی تنقید‘‘ کی صورت سامنے آئی ۔ عورت کی حیثیت کو مدّنظر رکھ کر جب قدیم بیانوں کا جائزہ لیا گیا تو غیر متوقع نتاءج سامنے آئے جن کی تفصیل کا محل نہیں ۔ صرف اسقدر کہ فارسی ادبےات کے اےک محقق نے جب قدیم ادب کو کھنگا لاتو اسے’’ ماں ‘‘ کے موضوع پر کوئی ادب پارہ نہ ملا!

۱ُردو ادب میں ، جہاں مشاہدہ اور علم تاریخیات، مسلّمات و عقائد سے ٹکراتے ہوئے محسوس ہوئے وہاں بجائے براہِ راست ٹکراوَ کے، بات کو پہلو سے نکال کر سوچ کومہمیز دی گئی ۔ کچھ اِسی نوع کی کشمکش کا بیانیہ ہے، ضیا حسیں ضیا کا ناول’ ’مابین‘‘ ۔

ناول کا منظر جنت کا ہے ۔ فردوسی زندگی کی ےکسانیت، غیر تخلیقی، غیر ارتقائی طرزِ زیست میں کشش نام کو نہیں ۔ دکھ، افسوس، دادو تحسین، جدوجہد کچھ پانے کی خوشی، کچھ کھونے کا غم کچھ بھی نہیں ۔

ےہ بیانیہ، ضیا حسین ضیانے اس فنی مہارت سے ترتیب دیا ہے کہ مسلّمہ عقائد پر زد بھی نہیں پڑتی اور انسان کی جبلت کا المیہ بھی سامنے آجاتا ہے ۔ جبلت جو جنت میں آسودہ نہیں ہے!اب یہ موضوع اپنے اندر ہی بہت بڑا ہے اور پھر جس ادبی و فکری انداز میں پیش کیا گیاہے وہ بھی چھوٹا نہیں ۔

مشرقی و مغربی ادبیات میں سیرِ افلاک کی روایت خاصی قدیم ہے ۔ حال ہی میں صوفی محقق محمد شفیع بلوچ (اب مرحوم ہو چکے) نے مکشوفی و معراجی تجربات کے ادبی بیان کا ذکر اپنی کتاب’سیرِآفاق‘ میں تفصیل سے کیا ہے ۔ قدیم سومیری ادب (اننا کا سفرِ ظلمات)، انبیاء کرام کی معراجیں ’ابنِ عربی کی ’فتوحاتِ مکّیہ‘ میں اسفار آسمانی کا بیان ،ابوالعلامعرٰی کا’رسالتہ الغفران‘ دانتے کی ’ڈیوائن کا میڈی‘ زرتشی موبد ’ارادی ویروف‘ کی سیرِافلاک، عہد نامہ جدید میں یوحنا عارف کا مکاشفہ، اقبال کی کتاب جاوید نامہ وغیرہ ۔ اِن سب میں اپنے اپنے مذہب و ماحول کے آرکی ٹاءپ کو بروئے کار لاکر آسمانوں میں جنت کی تجسیم کی گئی ہے ۔ لیکن ایک بات کم و بیش سب میں مشترک ہے کہ آسمانوں کی سیر کرنے والوں کا بیانہ مجرد مشاہدات پر مشتمل ہے ۔ سیر کرنے والے کی آسمانوں میں تخلیقی شراکت نہیں ہے!

ضیاء حسین ضیاء تو عہدِ موجود کا متلاشی و متجسسّ ذہن رکھتے ہیں ۔ وہ جنت کے باسی کو بھی طرز ِاستدلال سے مالامال دکھاتے ہیں اور ناول کا مرکزی کردار، ایک مقام پر ، جنت میں اصلاحات کا باقاعدہ مطالبہ پیش کر دیتا ہے ۔

اس ناول کی تعمیر اور فضا بندی میں یقینا مذہب اسلام کے جملہ آر کی ٹاءپ کو بروئے کار لاےا گیا ہے ۔ ےعنی جس طرح ایرانی موبد، ارادی ویروف، جہنم میں برف کا عذاب یا اطالیہ کا دانتے سمندری طوفان دیکھتے ہیں ، اسی طرح جنت کی تخلیقی منظر کشی کرتے ہوئے پاکستانی انداز کی ساخت کو مدِّنظر رکھا ہے ۔

اس مقام پر مناسب محسوس ہوتا ہے کہ ناول کا خلاصہ بیان کر دیا جائے ۔

ناول کا آغاز عرصہء محشر سے ہوتا ہے ۔ مرکزی کردار نجم عباس آفندی ، اپنے مرشد کریم آغاجان کی معیّت میں مراحلِ حشر سے گذر جاتا ہے تو نویدِ مغفرت ملتی ہے ۔ وہ شکر سے بھرا ہوا جنت میں پہنچ جاتا ہے ۔ وہاں وہ دیدارِ الٰہی سے مشرف ہوتا ہے ۔

جنت میں اُسے قصرِ احمر، حوروغلمان کے علاوہ’ ’شاہ خیر‘‘ نامی ایک مشکی گھوڑا بھی عطا ہوتا ہے( آر کی ٹاءپل وجوہ کی بناہ پر گاڑی نہیں مل پاتی!) ۔ ناول کے دوسرے باب ہی سے وہ قضیہ شروع ہوجاتاہے جسے ناول کے اختتام تک چلنا ہے ۔ نجم آفندی کے بقول:

’’میرا ذوق کہاں گیا- میں اُس ذوق کی بات کر رہا ہوں جس سے ، جمال و کمالِ دل کے مطابق میں فنی محاکمہ کرتا تھا ۔ کہانی کہتا تھا، شعر کہتا تھا اور تصویر کشی کرتا تھا، بدونِ نیتِ شرک ، مجسمہ سازی کرتا تھا ۔ بکھرے ہوئے عقلی قضیہ جات کی ترتیب سے صورتوں کی تصدیق یا تردید کرتا تھا ۔ یہاں تو عجوبہ بھی یافت ہی کی شکل میں ہے، دریافت کہاں چلی گئی میری ایجاد کہاں چلی گئی میری تخلیقی صلاحیت کہاں گئی جو میرے ذوقِ فکر و نظر کی نقیب تھی‘‘ ۔

ناول کے بقیہ ابواب میں یہی ایک مسئلہ مختلف صورتوں میں اور پہلووَں سے زیرِ بحث آتا ہے، اور بے جا تکرار کا شکار بھی ہوجاتا ہے ۔

نجم آفندی کئی مسلم فلاسفہ اور صوفیاء سے اُن کے جنّتی محلاّت میں ملاقاتیں کرکے ان کے روبرو’’ مسئلہ ارتقاد رفردوس‘‘ پیش کرتا ہے ۔ اُس کی ملاقات ، البتہ ، کسی غیر مسلم فلسفی و دانشور سے نہیں ہوتی ۔ دیگر اسفار ِ افلاک میں البتہ ایسا ہوا ہے مثلاً جاوید نامہ میں اقبال ، ’’ فرزانہء المانوی‘‘ جرمن فلسفی و شاعر نطشے سے ملتے ہیں ۔

کسی بھی شخصیت سے اُسے تسلّی بخش جواب نہیں ملتا ۔ دراصل نجم آفندی جنتی زندگی میں یکسانیت سے اُکتا جاتا ہے ۔ وہ غور کرتا ہے کہ فردوسی حیات میں نعمتوں کی توافراط ہے لیکن انسانی فعّالیت ختم ہو کر رہ گئی ہے ۔ وہ اپنی کنیز  حورالعین کی روبوٹی

خوئے تسلیم میں بھی انکار دیکھنے کا متمنی ہے! وہ اسی بناپر حور کے جسمانی قرب سے بھی کنارہ کش ہوجاتا ہے تاوقتیکہ کہ وہ’’استدلالی فکر‘‘ کی خوگر نہیں ہوجاتی ۔ اُسے ایک طوطا بتاتا ہے کہ زمین پر وہ اپنی مرضی سے چہکار پیدا کرتا تھا لیکن جنت میں اُس پر جبرلاد دیا گیا ہے!

ناول کا اہم تریں حصّہ نجم کی فلسفیوں اور دیگر شخصیات سے ملاقاتوں اور مکالموں پر مشتمل ہے ۔ صاحبِ ذوق دیہاتی کاشتکار ، منشاعزیز، جوجنت میں بھی شوقیہ کاشتکاری اپناتا ہے، نجم کو بتاتا ہے کہ ز میں پر کاشتکاری کا زیادہ مزاتھا جبکہ فصل پکنے نہ پکنے، وقت پر بارش ہونے نہ ہونے، بیج کے ضائع ہونے کا دھڑکا رہتا تھا، جنت میں بغیر کسی تردد کے فصل پک جاتی ہے اور تجربات سے سیکھنے سکھانے کا کوئی موقع نہیں ملتا!

نجم اپنے مرشد کریم آغا کے ساتھ صوفی جان محمد کے محل میں جاتا ہے جو زمینی حیات میں ، ساہیوال کے دور افتادہ قصبے میں موچی کا کام کرتے تھے (’’شہاب نامہ ‘‘ کا جھنگ کا موچی) وہ نجم کا معاملہ سنتے ہیں لیکن آخر میں نجم سے اُس کا جوتا برائے مرمت لے لیتے ہیں جو نجم کے بقول تنگ ہو چکا تھا! اِس طرح صوفی جان محمد بھی اپنے ذوق کو سینے سے لگائے ہوئے تھے ۔

پھر نجم الگ الگ خیابانِ رومی اور خیابانِ اقبال کا مسافر ہوتا ہے ۔ ہر دو سے اپنا سوال دہراتا ہے لیکن اُس کی تسلّی نہیں ہوتی ۔ ناول میں اقبال کا فکری قدوقامت رومی سے کہیں بڑا ہوکر آیاہے حالانکہ اقبال رومی کو اپنا مرشد مانتے تھے! شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ رومی نے زیادہ سے زیادہ یہ کیا کہ الٰہیات کی چار دیواری سے نکل کر تصّوف کے باغ کی سیر کرلی یا علم الکلام سے معاملہ کرلیا جبکہ اقبال نے منطق ، سائنس اور جدید مغربی فلسفے کی گلیوں میں بھی چہل قدمی کی اور یوں اقبال کی سوچ کثیر جہتی ہو چکی تھی ! اقبال کے عہد تک ذہنِ انسانی کی متنوع کارکردگی اور عقل و شعور کی فعّالیت اپنے بھرپور مظاہر دکھا چکی تھی(اور اب تو اور زیادہ دکھارہی ہے) شاید اسی لیے یہ فکری قضئے ہمہ جہت بھی ہیں اور عملی نوعیت کے بھی ! ویسے بھی پورے ناول میں اقبال کی نظم ’’خفتگان خاک سے استفسار‘‘ کے سوالات چلتے پھرتے نظر آتے ہیں ۔

یہاں تک پہنچ کر نجم آفندی اپنے ارتقا کے خیا ل پر اتنا پختہ ہو چکا ہوتاہے کہ مرشد آغا جان کے سامنے جنت میں اصلاحات کا ۴۱ نکاتی ایجنڈ پیش کر دیتا ہے ۔ ( قائد اعظم کے چودہ نکات!)

مرزا غالب سے نجم کی ملاقات بہت دلچسپ رہتی ہے ۔ وہ نجم کا مسئلہ سن کر اُس سے متفق ہوتے ہیں اور دوسری بار مرنے کو تیّار ہو جاتے ہیں !

ابنِ عربی سے ملاقات میں بہت سی علمی گفتگو ہوتی ہے اور پھر ابنِ عربی کو نجم میں ’’آدم ثانی‘‘ کے آثار نظر آتے ہیں ، اِسے جنت کا روحانی مکاشفہ کہناچاہئیے ۔

ایک دن متکلم وفلسفی ، ملاصدرالدین شیرازی خود نجم سے ملنے اُس کے محل سرا میں آتے ہیں اور اُس سے مسئلہ ذوق پر گفتگو کے متمنی ہوتے ہیں ۔ نجم کی بات وہ تسلیم کرتے ہیں اور اُسے فقط دعا کی تلقین کر کے رخصت ہو جاتے ہیں ۔

آخری باب میں نجم آفندی اُسی شجر ممنوعہ کا کھوج لگا کر، بغیر ترغیب ِ ابلیس کے، اس کاپھل کھالیتا ہے جس کا ابوالبشر آدم نے کھایا تھا ۔ عہد نامہ قدیم میں اسے ’’جاننے کے درخت کا پھل‘‘ کہا گیا ہے ۔ اُسے ایک نئے منطقے پر پھینک دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اپنا شیطان، اپنے ذوقِ تخلیق سے خود پیدا کرو ۔

یہان پر ضیا ء حسین ضیاء کا حیرت کدہ ختم ہوجاتا ہے ۔

پورے ناول کی مکالماتی فضا الٰہیاتی اور صوفیانہ طرزِ فکر سے بُنی گئی ہے ۔ مرکزی کردار نجم (ناول گار)کہیں بھی تشکیک کی روشں اختیار نہیں کر سکتا کہ بہرحال وہ جنت میں ہے بلکہ اُس نے جابجادنیا میں تشکیک اور انکار رکھنے والوں کی بظاہر علمی تنقیص کی ہے ۔ یوں نَجم بار بار ا سے رجوع کرتا اور رہنمائی کا طلب گار ہوتا ہے! وہ نعمتوں کے تواتر کو رضائے الٰہی کی دلیل بناتا ہے ۔ حالانکہ یہی دلیل دنیا میں لا ادری اور ناستک بھی دے سکتے ہیں اور دیتے بھی ہیں !

ساختیاتی حوالوں سے جائزہ لیں تو ناول کی تعمیر میں وہی ساختئیے (کوڈز اور کنویشنز) کام آئے ہیں جو ہمارے آرکی ٹاءپل صوفیا نہ مشرقی ادب میں رہے ہیں ۔ جب ہم نَجم کے آئینہ خانے میں جاکر خود کو عکس در عکس دیکھنے اور وادیِ ناسوت میں جانے کی ساختیائی کھدائی کرتے ہیں تو نیچے سے فریدالدین عطَار کی مثنوی’’ منطق الطیر‘‘ کے اجزا بر آمد ہوتے ہیں ۔ اسی طرح جہاں نجم کی ملاقات الاوَ کے گرد بیٹھے چار فقیروں (فرشتوں ) سے ہوتی ہے تو قصّہء چہار درویش بولتا ہے ۔ جنت کی فضا بندی اور حور و قصور کے ذکر میں قرآن اور فتوحات مکّیہ کا مواد کام آیا ہے ۔ یعنی یہ ناول اپنے خمیر میں مشرقی ادبیات (الٰہیاتی وغیرالٰہیاتی) اور علم الکلام پر مبنی ہے ۔ ناول پڑھتے ہوئے سب سے دلچسپ وہ موازنہ ہے جوقاری لا شعوری طور پر جنت کے پیش کردہ ماحول اور موجودہ (پاکستانی) ماحول میں کرتا رہتا ہے ۔ جنت اور پاکستان کو ایک تطابق بھی ہے!ساہیوال کا موچی ، علامہ۱قبال اوپن یونیورسٹی میں علوم ِ اسلامیہ کا پروفیسر ، تباہ کن زلزلہ وغیرہ پاکستان کے جنتی حوالے ہیں ! اسی مقام پر ناول میں سماجی حقیقت نگاری کی ہلکی سی جھلک نظر آتی ہے، یا پھر بعض کرداروں کی نفسیاتی ضروریات میں :

ناول، سبک رواں ، دواں نثر نہیں بلکہ ادبی شان رکھنے والی مرصّع نثر پر مشتمل ہے ۔ اس میں مذہبی ، صوفیانہ اور فلسفیانہ اصطلاحات کی کثرت ہے ۔ عربی و فارسی سے بے پناہ استفادہ ہے اس طرح یہ ناول سوچنے سمجھنے والے تربیت یافتہ قاری کے زیادہ قریب ہے ۔ ایسا قاری جو فکری ارتقا کی تاریخ سے بھی واقف ہو ۔ فقرہ بندی میں ، البتہ ، زیادہ مہارت سے ترسیل بہتر ہو سکتی تھی ۔

فنی اعتبار سے بھی چند تسامحات ناول میں درآئے ہیں ۔ جیسے مرکزی کردار نجم آفندی کو پورے ناول میں شاعر ، ادیب، مصوّر دکھایا گیا ہے لیکن اختتام سے ذراقبل پتہ چلتا ہے کہ وہ زمین پر ماہر زراعت بھی تھا ۔ یہ ضرورت اِس لیے پیش آئی کہ شجر ممنوعہ کو پہچاننے کے لیے یہ علم درکار تھا ۔ ناول نگار کو یہ گنجائش پہلے سے رکھنی چاہیے تھی ۔

دوسرا مسئلہ یہ اُٹھتا ہے نجم کی حادثاتی موت اور قیامِ قیامت تک کے عرصے میں ہونے والا مفروضہ ارتقا ناول سے غائب ہے ۔ یہ اس لیے بھی اہم ٹھہرتا ہے کہ نجم کے اعتراضات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ابھی اُس کا ارتقا جاری تھا اور وہ مر گیا!

تیسرا یہ کہ جنت کے لازمانی تصوّر پر سیر حاصل گفتگو موجود نہیں حالانکہ محشر کے بعد وقت کے لامختتم تسلسل کا سوچیں توسانس رُکنے لگتی ہے ۔

جستجوئے استدلال پر کھڑے اس ناول میں شیطان کو آگ میں جلتا ہوا بتایا گیاہے ۔ ، جس کی تخلیق ہی آگ سے ہو ( جو خود نار ہو) اُس کے لیے آگ کا عذاب بے معنی ہے ! شیطان کے لیے عذاب یہ ہو سکتا ہے کہ اُسے سیاچن گلیشر میں گاڑ دیا جائے ۔

اسی طرح منشا عزیز کے روبرو نجم کہتا ہے کہ اُسے فارسی زیادہ نہیں آتی، لیکن مولانا روم کو بتاتا ہے کہ وہ ان کا کلام ذوق وشوق سے پڑھتا رہا ہے بلکہ مثنوی کا پہلا شعر بھی سنادیتا ہے ۔ دیگر تسامحات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے یہاں مناسب محسوس ہوتا ہے کہ ہر من ہیس کے نوبل انعام یافتہ ناول’’ سدھا رتھ‘‘ کا ذکر کیا جائے ۔ مذکورہ ناول میں گوتم بدھ کو نہیں ، بلکہ انہی کے عہد کی ایک اور پاور فل شخصیت ’’ سدھا رتھ‘‘ کو مرکزی کرداربنایا گیاہے ۔ وہ مہاتما بدھ سے ملتا تو ہے لیکن تلاشِ حقیقت کا اپنا ہی راستہ اختیار کرتا ہے، ناول کا مرکزی خیال ہی یہ ہے کہ ہر طالب ِ حق کا اپنا اپنا طریقہ اور اپنا اپنا جلوہ ہے ۔ سدھارتھ کی زبان البتہ نہایت سادہ ، علمی مسائل کی پیش کش عام فہم، ہے اور دانش پاروں پر اصطلاحات کا بوجھ نہیں ڈالا گیا ۔ اس کے برعکس ’’مابین‘‘ کی زبان، بیانیہ اور متن خالص علمی بن جاتا ہے جو کسی بھی ناول کی کمزوری کہا جا سکتا ہے ۔

بہر حال ، ضیا حسین ضیا نے بہت جگہوں پر اعلیٰ ادبی انداز سے معیارات بھی بنائے ہیں ۔ اہم سوالات کھڑے کیے ہیں ۔ علم کو ادب میں ڈھالا ہے ۔ اپنے علم الکلام او ر تبحّر علمی سے بہت استفادہ کیا ہے، میرے خیال میں اس ناول کا کم ازکم فارسی میں ضرور ترجمہ ہونا چاہیے ۔

انوکھی جنتی فضا، محکم و مرصّع زبان و بیان، فلسفیانہ مکالموں اوربعض نئے افکار و سوالات کے باعث ’’ مابین‘‘ اُردو ناول کی تاریخ میں نئی جہت کا اضافہ کرتا نظرآتا ہے اور اسی وجہ سے اہم ٹھہرتا ہے یہ ناول اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ ناول میں بہت سی اَ ن کہی موجود ہے اور یہ ان کہی تیسری آنکھ والوں کو ہی نظر آتی ہے ۔ تیسری آنکھ جو الٰہیات کی چار دیواری سے باہر کھلتی ہے ۔ کسی نے کہا ہے کہ دنیا انہی کے دم سے ترقی کرتی آئی ہے جو اس کی مخالفت میں زور لگاتے ہیں ۔ کیا خبر کل کلاں کو ضیا حسین ضیا الٰہیاتی نظام ِ فکر پر دائرہ منقولات سے باہر کھڑے ہو کر بھی تیسری آنکھ سے نگاہ ڈالیں ۔

شہزاد نیّر

گوجرانوالہ (پاکستان)

Facebook Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.